راہوں میں دیئے ہم نے جو رکھے ہیں جلا کے
بدلے ہوئے تیور نظر آتے ہیں ہوا کے
کیا خوب ہیں انداز تری شرم و حیا کے
آئینے سے بھی رکھتا ہے تو خود کو چھپا کے
ہوجاتے ہیں اللہ کی راہوں میں فنا جو
ملتے ہیں مزے اُن کو فنا میں بھی بقا کے
انسان تو انسان پرندے بھی خدایا
گاتے ہیں سدا گیت تری حمد و ثنا کے
ممکن نہیں بے پردہ نظر آئے کبھی وہ
وہ پردہ نشیں رہتا ہے پردے میں حیا کے
ہمدردی ذرا میرے پڑوسی کی تو دیکھو
آیا ہے بجھانے مرا گھر آگ لگاکے
احساس مجھے دھوپ کی شدت کا ہو کیونکر
سائے مرے سر پر ہیں تری زلفِ رسا کے
جب راہ نما کوئی نظر آیا نہ ہم کو
ہم چل پڑے رستے میں بھروسے پہ خدا کے
مشتاقؔ اُسی در پہ نہ کیوں ہاتھ پساروں
شرمندہ جہاں ہوتے نہیں ہاتھ دعا کے
******************