* چبھتی ہے لمحہ لمحہ مجھے تیر کی طرح *
چبھتی ہے لمحہ لمحہ مجھے تیر کی طرح
اب زندگی ہے موت کی تصویر کی طرح
دل میں بسی ہے جب سے کسی گلبدن کی یاد
ہے صحنِ دل بھی گلشنِ کشمیر کی طرح
اُلجھا ہوا ہوں میں بھی مسائل کی بھیڑ میں
اے دوست! تیری زلفِ گرہ گیر کی طرح
وہ دن بہت قریب ہے جب عظمتِ حیات
پھیلے گی کائنات میں تنویر کی طرح
رہنے دو نقش چاہے مٹادو خیال سے
ہم ہیں تمہارے ہاتھ کی تحریر کی طرح
آغوشِ گلستاں میں رہو پھول بن کے تم
میدانِ جنگ میں رہو شمشیر کی طرح
آنکھوں سے میری ، خواب بھی روٹھے ہوئے ہیں اب
میں ہوں بغیر خواب کے تعبیر کی طرح
میری بھی ہوتی خوب پذیرائی بزم میں
مشتاقؔ میں جو کہتا غزل میرؔ کی طرح
***************** |