* نفرت کی آج شہر میں ایسی چلی ہوا *
نفرت کی آج شہر میں ایسی چلی ہوا
چہرے سے سب کے پیار اڑا لے گئی ہوا
چبھتی ہے لُو کی طرح مرے جسم و جاں میں اب
جب تک وہ تھے چمن میں تو گلریز تھی ہوا
آئی ہے کرکے کوچۂ محبوب کا طواف
نازاں نہ کیوں ہو جھومتی گاتی ہوئی ہوا
تیرا گلِ شباب ہمیشہ کھلا رہے
بخشے رُخِ حسیں کو ترے تازگی ہوا
دوشیزگی کے سر پہ نہ آنچل رہے گا اب
چلنے لگی ہے مغربی تہذیب کی ہوا
گلشن میں تھی جو بادِ بہاری کی شکل میں
آندھی کی طرح چلنے لگی اب وہی ہوا
مشتاقؔ میرے گائوں کی صورت بدل گئی
اب آگئی ہے گائوں میں جو شہر کی ہوا
**************** |