* راس آسکا نہ سایۂ زلفِ رسا مجھے *
راس آسکا نہ سایۂ زلفِ رسا مجھے
صحرائے غم کی دھوپ میں جلنا پڑا مجھے
میں خود کو جاننے کے بھی قابل نہیں رہا
اِس طرح آج وقت نے دھوکا دیا مجھے
اندازِ برہمی تو کبھی نازِ دلبری
دونوں طرح لبھاتی ہے اُس کی ادا مجھے
اے کاش میرا نام بھی لیتا کوئی یہاں
اک آدمی بھی شہر کا پہچانتا مجھے
میں پیکرِ الم بھی ہوں محوِ نشاط بھی
سمجھا نہ تونے اے دلِ ناآشنا مجھے
جب تک وہ مجھ سے دور تھا لگتا تھا اجنبی
آیا مرے قریب تو اپنا لگا مجھے
لوگوں کا جس میں سانس بھی لینا محال تھا
اُس دورِ حادثات میں جینا پڑا مجھے
ہنگامہ ہائے شہر سے بڑھ کر عزیز ہے
مشتاقؔ اپنے گائوں کی گونگی فضا مجھے
*************** |