* وہ درد بن کے آج بھی میرے جگر میں ہے *
وہ درد بن کے آج بھی میرے جگر میں ہے
ہر لمحہ اُس کی صورتِ زیبا نظر میں ہے
حاصل ہے چین شہر کے پختہ مکاں میں کب
قلبی سکوں تو گائوں کے مٹی کے گھر میں ہے
ممکن نہیں کہ راہِ وفا سے بھٹک سکوں
اک نور تیری یاد کا راہِ سفر میں ہے
بچھڑے ہوئے تو اُس سے زمانہ ہوا مگر
اُس کا اداس چہرہ ابھی تک نظر میں ہے
گزرا ہے اِس طرف سے کوئی گلبدن ضرور
خوشبو تمام پھیلی ہوئی رہ گزر میں ہے
تیری نظر سے کتنے نظارے ہوئے جواں
کیا بات اے صنم ترے حسنِ نظر میں ہے
مشتاقؔ ایسے دور میں ہم جی رہے ہیں آج
انسانیت گھری ہوئی خوف و خطر میں ہے
**************** |