* کیا بتائے گا وہ منزل ہے کدھر *
کیا بتائے گا وہ منزل ہے کدھر
بھول بیٹھا راستہ جب راہبر
موت برحق ہے نہ چھوڑے گی کبھی
تو کہاں جائے گا ناداں بھاگ کر
آنے والا ہے جہاں میں انقلاب
ہوشیار! اے صاحبانِ سیم و زر
جھانکتا ہے دوسروں کے گھر میں کیا
اپنے گھر کی لے خبر اے بے خبر
ہے یہ صورتحال آزادی کے بعد
آپ ہیں محلوں میں ، ہم فٹ پاتھ پر
کر رہے ہیں آشیاں تعمیر ہم
رقص میں مصروف ہیں برق و شرر
اُس کے ہونٹوں پر ہیں میٹھی بولیاں
ہے مگر وہ زہرِ آہستہ اثر
میرے چہرے کا شگفتہ پن نہ دیکھ
دیکھ میرے جسم کا ویراں کھنڈر
جو میسّر تھی کبھی مشتاقؔ کو
اب کہاں وہ راحتِ قلب و نظر
************** |