* تم بادِ صبا ہو تو سدا پھول کھلائو *
تم بادِ صبا ہو تو سدا پھول کھلائو
آندھی نہ بنو صحنِ گلستاں کی ہوائو
غفلت کے اندھیرے میں ہے سوئی ہوئی دنیا
آوازِ جرس بن کے زمانے کو جگائو
کب تک یوں ہی کھیلوگے مرے خون سے ہولی
اے قاتلو تم اب بھی ذرا ہوش میں آئو
کمزور نہ ہوجائے کہیں عزم تمہارا
ناکامیٔ تدبیر پہ آنسو نہ بہائو
پھیلے ہوئے راہوں میں ہیں نفرت کے اندھیرے
اخلاص و محبت کی کوئی شمع جلائو
کہتا ہے جو اپنے کو مسیحائے زمانہ
مکار ہے اُس شخص کے کہنے پہ نہ جائو
باقی نہ رہی پچھلے خدائوں کی خدائی
مٹ جائوگے تم بھی اے زمانے کے خدائو
مشتاقؔ کوئی شعر جو کہتا ہوا گزرا
سائے نے درختوں کے کہا بیٹھ کے گائو
**************** |