* مجھ تک تری نظر کا پیغام تک نہ آیا *
مجھ تک تری نظر کا پیغام تک نہ آیا
اک پل دلِ حزیں کو آرام تک نہ آیا
اہلِ وفا پہ برسے راہِ وفا میں پتھر
جو بے وفا تھا اُس پر الزام تک نہ آیا
اُس راہِ آرزو سے گزری حیات میری
جس راہ میں خوشی کا ہنگام تک نہ آیا
اک مسئلہ بنا ہے صیاد کی اَنا کا
وہ پَر بُریدہ طائر جو دام تک نہ آیا
دنیائے دل لٹاکے پچھتا رہا ہوں لیکن
آغاز میں خیالِ انجام تک نہ آیا
جس نام سے تھے روشن دل کے تمام گوشے
مشتاقؔ کے لبوں پر وہ نام تک نہ آیا
************** |