* مہنگا تھا وہ مہنگا ہی ہے *
مہنگا تھا وہ مہنگا ہی ہے
ہیرا آخر ہیرا ہی ہے
لاکھ بھلانا چاہوں اُس کو
یاد مگر وہ آتا ہی ہے
جھوم کے برسا بادل پھر بھی
ساون روکھا سوکھا ہی ہے
ٹوٹتے ہیں ہر رات ستارے
سورج آگ اگلتا ہی ہے
امن کا دور یہ کیسا آیا
خون کا دریا بہتا ہی ہے
گرگٹ کی مانند وہ اکثر
رنگ بدلتا رہتا ہی ہے
گائوں میں اپنا گھر ہے میرا
گرچہ ٹوٹا پھوٹا ہی ہے
الجھن میں مشتاقؔ ہے پھر بھی
شعر ہمیشہ کہتا ہی ہے
************** |