* مجھے کچھ اس پہ حیرانی نہیں ہے *
مجھے کچھ اس پہ حیرانی نہیں ہے
تری آنکھوں میں جو پانی نہیں ہے
فنا فی اللہ ہوجائے جو انساں
فنا ہوکر بھی وہ فانی نہیں ہے
یقینا اُس میں کوئی بات ہوگی
یہ دنیا یوں ہی دیوانی نہیں ہے
خزاں کا ہاتھ اس میں ہے یقینا
فضا گلشن کی جو دھانی نہیں ہے
کسی مجبور کا حق مار لینا
گدائی ہے یہ سلطانی نہیں ہے
خوشی حاصل ہے اُس کو مجھ سے مل کر
مگر چہرے پہ تابانی نہیں ہے
ہوا کے رُخ پہ اے مشتاقؔ چلنا
خرد مندی ہے نادانی نہیں ہے
************** |