غزل
مسلم سلیم
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو
سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے
ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
اپنے اسلاف سے کٹ جانا تھا نقصانِ عظیم
سب سے بڑھ کر یہ زیاں بھول گئے ہیں خود کو
پوچھتا ہے کوئی جب نام و نشاں ہنس ہنس کر
کھل نہیں پاتی زباں بھول گئے ہیں خود کو
یاد مسلمؔ کو دلائے کوئی بیتی باتیں
آج کل تو یہ میاں بھول گئے ہیں خود کو
--