* ہم جو وحشی تھے سرِ دشتِ سفر روتے رہ *
غزل
(مظفر ممتاز( اوسلو
ہم جو وحشی تھے سرِ دشتِ سفر روتے رہے
اور ہماری یاد میں دیوار و در روتے رہے
دھوپ میں ایسی تماز ت تھی کہ دن ڈھلنے تلک
دیکھ کر اپنے ہی سایوں کو شجر روتے رہے
ہم جہاں ٹھہرے اسی گھر میں اُداسی کی وباء
اس طرح پھیلی کہ دیواروں کو در روتے رہے
خوف یہ تھا جان جائیں گے ہمیں بستی کے لوگ
اس لئے بستی سے باہر بیٹھ کر روتے رہے
میں وہی صابر ہوں جس کے ڈوبنے پہ دیر تک
شانۂ ساحل پہ سر رکھ کر بھنور روتے رہے
Kongsveien-16, 0193 Oslo (Norway)
|