* زندگی تو کٹ رہی ہے مری حیرانی کے سا *
زندگی تو کٹ رہی ہے مری حیرانی کے ساتھ
کچھ پریشانی میں لیکن کچھ پشیمانی کے ساتھ
درد وغم، آلام و کلفت، بے قراری میرے نام
ساری دولت ایک جاہے کتنی آسانی کے ساتھ
کل تلک میں ہی بسا تھا ڈھڑ کنوں میں آپ کے
کون ہوں میں پوچھتے ہیں آپ نادانی کے ساتھ
اپنے ہی اس گھر میں شاید اجنبی میں ہوگیا
بام ودر بھی تک رہے ہیں مجھ کو حیرانی کے ساتھ
جب کہا میں نے کہ تجھ کو کون دیکھے گا بھلا
بول اٹھا جو بھی بھلا دے خود کو آسانی کے ساتھ
لے سکا میں کچھ نہ مضطرؔ ساتھ اپنے زادِ راہ
جا رہا ہوں اس جہاں سے کس پشیمانی کے ساتھ
****************************** |