* ہوئے شہید جو ہم مادرِ وطن کے لئے *
ہوئے شہید جو ہم مادرِ وطن کے لئے
غبارِ راہ اٹھا چادرِ کفن کے لئے
نقابِ روئے منّور اٹھا رہے ہیں وہ
عبث جلائی گئی شمع انجمن کے لئے
دقیق لفظوں کے انبار سے نہیں ہوتا
خیال و فکر بھی کچھ چاہئے سخن کے لئے
تڑپتے رہنے سے غربت میں کچھ نہیں ہوگا
لہو بھی چاہئے آزادیٔ وطن کے لئے
جلا کے جس کو بناتے ہو آشیاں اپنا
وہ آشیاں بھی تو ہے زینتِ چمن کے لئے
جو دے رہے تھے امیروں کو جامۂ زریں
ترس رہے ہیں وہی لوگ اب کفن کے لئے
ہم آپ رند ہیں مضطرؔ لڑا نہیں کرتے
یہ کام چھوڑئے اب شیخ و برہمن کے لئے
********************************* |