* یوں پو پھٹی کہ صبح کی توقیر گھٹ گئی *
یوں پو پھٹی کہ صبح کی توقیر گھٹ گئی
سورج چڑھا تو دھوپ اندھیروں میں بٹ گئی
ہر شام یوں لگا کہ قیامت کا دن ڈھلا
ہر صبح یوں لگا کہ صدی ایک کٹ گئی
سائے میں آیا میں تو عجب واقعہ ہوا
سائے کا ساتھ چھوڑ کے دیوار ہٹ گئی
محفوظ جس میں تھی تری دزدیدہ اک نظر
بازار زندگی میں وہی جیب کٹ گئی
اتنا مچایا شوربتوں نے دردنِ سنگ
پتھر کی میٹھی نیند بھی آخر اُچٹ گئی
تفصیل میں نہ جاکہ پیمبرتو میں نہ تھا
مضطر مری قمیص تھی اک روز پھٹ گئی
****************** |