* ہوا میں اڑتے ہوئے بادباں نہیں گزر® *
ہوا میں اڑتے ہوئے بادباں نہیں گزرے
برستے بادلوں کے کارواں نہیں گزرے
وہ بد گمانی کی پرچھائیوں میں رہتا ہے
اُدھر یقیں کے کبھی سائباں نہیں گزرے
میں جن کی آنکھوں میں سب اپنے خواب رکھ دیتی
میری نگاہ سے وہ مہرباں نہیں گزرے
محبتوں کے سفر میں یہ کون کہتا ہے
کہ دشتِ چشم سے آبِ رواں نہیں گزرے؟
جہاں بھی چاہے اُڑا کر مجھے وہ لے جائے
صدا کی لہر سے ایسے گماں نہیں گزرے
مئے حیات کی تلخی سبھی کا حصّہ تھی
جو میرے جیسے تھے تشنہ لباں، نہیں گزرے
تیری صدائے مسلسل کی گونج تھی، پھر بھی
’’تیرے خیال پہ کیا کیا گماں نہیں گزرے‘‘
****** |