* میرے اندر خاموشی بولتی ہے *
میرے اندر خاموشی بولتی ہے
تیری ہمرہی میں بھی
میں وصال لمحوں کو
رات دن ترستی ہوں
اپنے دل کی سب باتیں
پہلے بھی تو میں اپنی
خلوتوں سے کرتی تھی
اب بھی چادرِ شب کو
رازداں بناتی ہوں
اے میرے رفیقِ جاں
کیسے میں کہوں تجھ سے
تیری ہمرہی میں بھی
وصل آشنا لمحے
ہجر آشنا سے ہیں
سانس سانس میں میری
ایک بے بسی سی ہے
(کیا عجب کمی سی ہے)
بیکراں سی تنہائی
کے یہ سلسلے آخر
کب تلک سنبھالوں گی؟
تیری ہمرہی میں بھی
اجنبی فضائیں ہیں
خود سے تیرے لہجے میں
گفتگو بھی کرتی ہوں
پر میرا ادھورا پن
میرے ساتھ رہتا ہے
( ختم ہی نہیں ہوتا )
تیرے پیار کے جگنو
ہاتھ ہی نہیں آتے
****** |