غزل
یہ بادہ خوار کیسی دل لگی کی بات کرتے ہیں
وہ دریا پی چکے اور تشنگی کی بات کرتے ہیں
تکلم پر تمہارے ہیں ہزاروں ناطقے عاجز
بیانِ عجز ہے اور سرسری سی بات کرتے ہیں
ہیں کچھ اہلِ ہنرجن سے کہ اپنا بھایٔ چارہ ہے
کہ اٹھتے بیٹھتے بس شاعری کی بات کرتے ہیں
فضاؤں میں، گھٹاؤں میں زمین و آسمانوں میں
ہیں چرچے آپ کے سب آپ ہی بات کرتے ہیں
زباں کھولے تو پکڑے جایٔنگے اس بات کا ڈر ہے
کہ ہے منہ میں زباں اور خامشی کی بات کرتے ہیں
خیالوں میں سواۓ آپ کے کویٔ نہیں آتا
سو ہم آٹھوں پہر بس آپ ہی کی بات کرتے ہیں
بھلے یہ لوگ ہیں کیا خوش دلی کی بات کرتے ہیں
اجالوں کے مخالف روشنی کی بات کرتے ہیں
جو اعلی ظرف ہیں وہ ظرف ہی کی بات کرتے ہیں
مصایٔب میں ہنسی کی اور خوشی کی بات کرتے ہیں
یہ دل والے نجیب احمد کہاں کے رہنے والے ہیں
کہ ہر دم ہر گھڑی دل کی لگی کی بات کرتے ہیں
******************