نجیب احمد نجیب
غزل
کبھی نہ ہم نے گناہوں کا اعتراف کیا
ہمیں تو رحمتِ یزداں نے خود معاف کیا
جلا وہ جلنے کو کندن بنا نہ راکھ ہوا
شرارِ صدق و صفا سے جو انحراف کیا
پتہ چلا ہے مجھے تب ہی اپنی قامت کا
غبارو گرد جو آنکھوں سے اپنی صاف کیا
تجلیات کی زد میں تمام تر ہے وجود
یہ کس نے کعبۂ ہستی میں اعتکاف کیا
نبھایٔ جاتی ہے سب سے منافقوں کی طرح
نہ اتفاق کسی سے نہ اختلاف کیا
جنابِ ق ہم اہل دکن کے پاس ہے خ
کبھی جو موج میں آیٔں تو خ کو قاف کیا
تمہارے فون کی گھنٹی کی ایسی دہشت تھی
کہ ختم تیسرے چکر پہ ہی طواف کیا
مشاعرے میں گیا تھا بڑی امیدوں سے
مجھے شروع میں پرھوا کے موڈ آف کیا
میں جانتا ہوں انہیں یہ ہیں سارق الشعرأ
نہ جانے کس کی غزل تھی جو ہاتھ صاف کیا
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸