* ہے کارِ گراں نیند کی وحشت سے گزرنا *
ہے کارِ گراں نیند کی وحشت سے گزرنا
اِک خواب میں، اک خواب کی ساعت سے گزرنا
اچھا ہے کہ پتھر ہی کے ہو جائیں دل و جاں،
جب سانس کا لینا ہو، اذیّت سے گزرنا
اک آدھ نظرمیں نہ سمائیں گے در و بام
بستی سے ہماری ذرا فرصت سے گزرنا
ہم راہ روِ دشتِ صدا سوچ رہے ہیں
کب ہو گا ترے شہرِ سماعت سے گزرنا
اور اب تو قلق بھی نہیں اس بات کا ورنہ
مشکل تھا کبھی ترکِ محبت سے گزرنا
رکھنا تھا بھرم عہدِ گذشتہ، ترا مجھ کو
لازم تھا مرا پیاس کی شدت سے گزرنا
چٹخے ہوئے دیوار و در و بام سے ملنا
اے ابرِ رواں! جب ہو ترا چھت سے گزرنا
|