* چشمِ حیراں کہ تماشا گہہِ عالم کیا *
غزل
چشمِ حیراں کہ تماشا گہہِ عالم کیا ہے
رنگِ اثبات ہے کیا سلسلۂ رم کیا ہے
شعبدے تیرے سلامت مگر اے پیرِ فلک
غم کے ماروں پہ زمیں کا بھی ستم کم کیا ہے
کیا خبر آپ کو کیا ہے ستم شہر ستم
کیا پتہ آپ کو اندیشۂ پیہم کیا ہے
جاگتے ہوں کہ ہوں سوئے ہوئے ہٹتا ہی نہیں
دل پہ رکھا یہ پہاڑوں سے بڑا غم کیا ہے
زہر کو شہد کہیں ضد ہے یہ اُس کی ورنہ
ہم کو معلوم ہے یہ شہد ہے کیا سم کیا ہے
اُس کے افسانے کا حصہ میں نہیں ہوں نہ سہی
میرے قصے میں وہ شامل ہے یہی کم کیا ہے
زہرہ جانوں سے بھرے شہر میں کوئی تو بتائے
زخم کیا زخم پہ رکھا ہوا مرہم کیا ہے
پروفیسر) نصر غزالی)
17/1, Bedford Lane
Kolkata-700016
Ph: (033)22171733
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|