* کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہ *
غزل
کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے
یہ نہ پوچھ کیسے تجھ بن یہ حیات کٹ گئی ہے
یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں
وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے
نہ تجھے خبر ہے میری نہ مجھے خبر ہے تیری
تری داستاں سے جیسے مری ذات کٹ گئی ہے
یہ ترا مزاج توبہ یہ ترا غرور توبہ
تری بزم میں ہمیشہ مری بات کٹ گئی ہے
ترے انتظار میں میں جلی خود چراغ بن کر
تری آرزو میں اکثر یونہی رات کٹ گئی ہے
نہ وہ ہم خیال میرا نہ وہ ہم مزاج میرا
پھر اسی کے ساتھ کیسے یہ حیات کٹ گئی ہے
یہ کتاب قسمتوں کی لکھی کس قلم نے نکہتؔ
کہیں پر تو شہ کٹی ہے کہیں مات کٹ گئی ہے
ڈاکٹر) نسیم نکہتؔ)
Opposit Turia Ganj Hospital,
Tulsi Das Marg, Lucknow-4
Mob: 9415015186 / Ph: 0522-2262345
بشکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
………………………
|