* طوفاں میں اتر جاتے، ساحل سے پرے ہو *
طوفاں میں اتر جاتے، ساحل سے پرے ہوتے
یہ بات یقینی ہے، اتنے نہ ڈرے ہوتے
پھولوں کی کمی تھی تو اے موسمِ گل تو نے
پھیلے ہوئے دامن میں کانٹے ہی بھرے ہوتے
جب موسمِ گل آیا، بے ساختہ جی چاہا
کچھ یاد تیری آتی، کچھ زخم ہرے ہوتے
ممکن ہے کی میری ہی تصویر بنی ہوتی
خاکے میں اگر تو نے کچھ رنگ بھرے ہوتے
اب لوٹ کے آئے ہو مایوس نسیم اتنے
بازار گئے تھے تو سکے تو کھرے ہوتے
(نسیمِ سحر)
|