* شاداب سا موسم کوئی امکان میں رکھن *
شاداب سا موسم کوئی امکان میں رکھنا
پت جھڑ ہو تو آنکھیں میری گلدان میں رکھنا
بارش کی رُتوں میں انہیں پہچان میں رکھنا
سوکھے ہوئے پودوں کو بھی دالان میں رکھنا
ہو چاک گریباں تو پھر حد سے سوا ہو
کیا تار کوئی اپنے گریبان میں رکھنا
تہذیبِ ہنر کا یہ تقاضا ہے کہ مجھ کو
تم اپنی جدائی کے دبستان میں رکھنا
موجود تھے کتنے ہی مہکتے ہوئے گلشن
ہم ہی نے چنا خود کو بیابان میں رکھنا
الفاظ کے معنی میں تو وسعت ہی نہیں ہے
جذبوں کو نہ الفاظ کی گردان میں رکھنا
اپنا یہ وطیرہ ہے بدل ہی نہیں سکتا
کشتی کو ہمیشہ کسی طوفان میں رکھنا
تنقید نسیمِ سحر اوروں پہ ہے آساں
خود کو کبھی وقت کی میزان میں رکھنا
|