* اگرچہ سر پہ کئی سائباں بنائے گئے *
اگرچہ سر پہ کئی سائباں بنائے گئے
یہی کُھلا کہ وہ رائیگاں بنائے گئے
ہوائے تیز میں ٹِیلے فنا نہیں ہوتے
یہاں مِٹائے گئے تو وہاں بنائے گئے
فرازِ عرش پہ جانے کی وہ لگن تھی ہمیں
خلا کو چیر کے ہم سیڑھیاں بنائے گئے
عجیب دھن میں رہے ہم کہ مِٹ نہ پائیں کبھی
وہ نقش جو سرِ آبِ رواں بنائے گئے
ہمیں عزیز رہے اپنی جان سے بڑھ کر
وہ بام و در جو بڑے بے اماں بنائے گئے
کسی کے ہجر میں جل کر یہ دل دہک اٹھا
پھر اس شرر کو ہم آتش فشاں بنائے گئے
فقط ہمارا چلن تھا کہ دوسروں کے لئے
بھنور میں بیٹھ کے ہم کشتیاں بنائے گئے
بس ایک لمحہِ قربت تھا عمر بھر پہ محیط
اس ایک پھول سے ہم گلستاں بنائے گئے
عجیب اپنا المیہ رہا نسیمِ سحر
حقیقتوں میں رہے، داستاں بنائے گئے
|