* آئی تھی شام، لے کے جلائے ہوئے چراغ *
آئی تھی شام، لے کے جلائے ہوئے چراغ
جب شب ہوئی تو اپنے ہی سائے ہوئے چراغ
دیتے نہیں ہیں اب تو ذرا سی بھی روشنی
ہم کو، ہمارے اپنے بنائے ہوئے چراغ
اس عہد میں کہاں کوئی منظر ہے معتبر
شب زاد بھی ہیں سر پہ اٹھائے ہوئے چراغ
آئی شبِ سیاہ میرے شہر کی طرف
اپنی ہتھیلیوں پہ سجائے ہوئے چراغ
اس شہرِ بے وقار میں کیا روشنی کریں
اپنی لوؤں میں ڈر کے سمائے ہوئے چراغ
زخموں سے چُور ہو کے چلے ہم تو یوں لگا
اک کارواں چلا ہے جلائے ہوئے چراغ
آئے، جو آ رہی ہے مقابل شبِ سیاہ
ہم بھی ہیں آستیں میں چھپائے ہوئے چراغ
ہم نے چُنے ہیں اپنے سفر کے لئے نسیم
ٹوٹے ہوئے ستارے، بجھائے ہوئے چراغ
(نسیمِ سحر)
|