* اپنا ہے کون گردشِ ایام کے سوا *
اپنا ہے کون گردشِ ایام کے سوا
روشن ہے شہر میرے در و بام کے سوا
اب مجھ پہ یہ کھلا سبھی رشتے فریب ہیں
کوئی نہیں میرا دلِ ناکام کے سوا
دل میں نہ اور کوئی مکیں ایک تو ہی بس
لب پر نہ کوئی نام تیرے نام کے سوا
ہے کون جو شریکِ غمِ ہجرِ یار ہو
تنہائیوں میں ڈوبی ہوئی شام کے سوا
جاری رکھیں گے سلسلۂ حرفِ خیر ہم
حاصل نہ چاہے کچھ بھی ہو دشنام کے سوا
تختی پہ گھر کی کچھ بھی نہ تحریر تھا نسیمؔ
بس ایک میرے مٹتے ہوئے نام کے سوا
|