* کل تک جنہیں ہم رہتے تھے پلکوں پہ بٹ *
(نصیر افسر( رانچی
غزل
کل تک جنہیں ہم رہتے تھے پلکوں پہ بٹھائے
لگتے ہیں ہمیں آج وہ انسان پرائے
اک حادثہ پھر جُرم کی آغوش سے نکلا
آئے ہیں اسے یاد جہاں درد کے سائے
شیطان کی بستی میں سبھی سے پوچھ رہا ہوں
انسان کہاں ملتے ہیں کوئی تو بتائے
ہر سمت اندھیرا تھا شب ظلم میں لیکن
گہرے تھے بہت پھر بھی تری یاد کے سائے
مرغان چمن قید سے آزاد ہو ئے کیا
ہر موڑ پہ صیاد نے پھر جال بچھائے
٭٭٭
|