donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Naseer Ahmad Nasir
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* کھلے دریچوں کے پاس بیلوں پہ شام ات *
دکھی لفظوں کی اک نظم
 
کھلے دریچوں کے پاس بیلوں پہ شام اتری تو اس نے سوچا؛
کبھی دسمبر کی دھوپ جیسا وہ مہرباں جو کہیں نہیں ہے
ہوا کے ہونٹوں پہ گیت لکھتا تو بالکونی میں پھول کھلتے
جو لوگ آنکھوں کے خواب لے کر سمندروں میں اتر گئے تھے
وہ جانتے تھے کہ ریگ ساحل محبتوں کی امیں نہیں ہے
جو لوگ رستوں میں پھر نہ ملنے کا عہد کر کے بچھڑ گئے تھے
کسے خبر ہے کہ وہ ہواؤں کے گیت بن کر، تھکے پرندوں،
بکھرتے پتوں کے میت بن کر اداس راہوں میں گونجتے ہیں
 
انہی خیالوں میں گم وہ کمرے سے آئی باہر تو اس نے دیکھا؛
ہوا کے جھونکے برآمدے میں ستون بن کر کھڑے تھے لیکن
دکھوں کی بیلا نے ان کے اوپر عجیب لفظوں میں لکھ دیے تھے
گئی رتوں کے سوال نامے جنھیں وہ پڑھ کے بہت ہی روئی
 
(نصیر احمد ناصر، مطبوعہ "اوراق" ستمبر 1980ء)
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 314