|
|
|
|
|
|
Shared Successfully.
|
|
|
|
* کہیں ایک رستہ ملے گا *
کہیں ایک رستہ ملے گا
جہاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہم
چلیں گے
طلسمی جہانوں کی جانب
ہوا سرسراتی ہوئی
پھول پتے اڑاتی ہوئی
گنگناتی ہوئی
ساتھ ہو گی
کبھی صبح ہو گی
کبھی رات ہو گی
کہیں پاس ایک دریا خموشی سے بہتا ملے گا
قدیمی درختوں سے کہتا ملے گا
"مرے سست رفتار پانیوں میں زمانوں کی تیزی ہے
میرے کناروں پہ آباد خوشحال شہروں کے نیچے مری ریت ہے
مری تہہ میں صدیوں کا دکھ ہے
کوئی مجھ میں اترے تو جانے،
مجھے پار کر کے تو دیکھے!"
مگر ہم چلیں گے
گھنے جنگلوں سے گزر کر
پہاڑوں کے اس پار جائیں گے
درزوں، دراڑوں میں، غاروں میں جھانکیں گے
چلتے رہیں گے
ہرا سار جو سامنے کھیت ہے
فصل تازہ سے لبریز ہے
اس کے نیچے
محبت کی کاریز ہے
جس کے دم سے یہ ساری زمیں دل کی زرخیز ہے
تشنگی جسم کا بھید ہے، روح کا چھید ہے
فاصلہ ہے
یہاں سے وہاں تک بچھا ہے
خبر کیا کہاں تک بچھا ہے
کہیں ایک رستہ ترے میرے قدموں کے نیچے چھپا ہے
اسے طے کریں گےتو آگے بڑھیں گے
کہیں ایک لمحہ ہے
عمروں کا حاصل
کہیں کوئی چہرا ہے
بوسیدگی سے بھرا اک مکاں ہے
کسی یاد کہنہ کا جالا ہے، مکڑی ہے
سانپوں کا بل ہے
کہیں ایک صدیوں پرانی سی "ونڈ مل" ہے
جس کے گھماؤ میں
پانی ہے، پتھر کی سل ہے
تری سبز آنکھیں، مرا سرخ دل ہے
(نصیر احمد ناصر)
|
|
|
|
|
|
|
|
|
You are Visitor Number : 308
|
|
|
|