* ہجر کا چاند منور ہو گا *
ہجر کا چاند منور ہو گا
کوئی دور سفر پر ہو گا
سب دروازے باہر ہوں گے
ایک دریچہ اندر ہو گا
پیلی پتھریلی آنکھوں میں
نیلا کانچ سمندر ہو گا
تتلی کے رنگین پروں پر
درد کا بھاری پتھر ہو گا
خوابوں کی تنہائی ہو گی
سورج عین سروں پر ہو گا
دیپ جلیں یا جگنو چمکیں
شب کا رقص برابر ہو گا
خواب پگھل کر جم جائیں گے
کمرہ برف دسمبر ہو گا
ناؤ کنارا ڈھونڈ رہی ہے
دریا پار سمندر ہو گا
آنکھیں جس کو دیکھ رہی ہیں
منظر کا پس منظر ہو گا
خاموشی کی آڑ میں ناصر
آوازوں کا لشکر ہو گا
(نصیر احمد ناصر، 1979)
|