* پس تصویر ہی دکھا مجھ کو *
پس تصویر ہی دکھا مجھ کو
کارنس پر مگر سجا مجھ کو
کیوں بنایا تھا مجھ کو مٹی سے
چاک ہستی پہ اب گھما مجھ کو
سرمئی بارشوں کو کھڑکی سے
اچھا لگتا ہے دیکھنا مجھ کو
کوئی دیوار ہے نہ دروازہ
گھر ملا کس قدر کھلا مجھ کو
اک شگوفے کا میں نے سوچا تھا
اس نے پھولوں سے بھر دیا مجھ کو
پینٹ سے آسماں کے کینوس پر
بادلوں کی طرح بنا مجھ کو
پھوٹ نکلا ہوں خواب کے اندر
اپنی آنکھوں سے اب بہا مجھ کو
دیو زادے کی جان ہے جس میں
وہ پرندا کبھی دکھا مجھ کو
سارا جنگل تھا گھات میں لیکن
اک درندے نے کھا لیا مجھ کو
پہلے کہتا تھا یاد رکھنا سدا
اب وہ کہتا ہے بھول جا مجھ کو
خود نمائی کی اس کو عادت ہے
منہ دکھاتا ہے آئنہ مجھ کو
میں زمانوں کا خواب ہوں ناصر
جب نہ ہوں گا تو دیکھنا مجھ کو
************** |