* گہری خاموشیوں میں اتری تھی *
گہری خاموشیوں میں اتری تھی
اک صدا گنبدوں میں اتری تھی
سب گھروں میں چراغ روشن تھے
رات جب بستیوں میں اتری تھی
ایک سیدھی لکیر سی خواہش
ان گنت دائروں میں اتری تھی
آنکھ یادوں کی ریل گاڑی سے
بھاگتے منظروں میں اتری تھی
پھر نہ دیکھا گیا کوئی منظر
اک کرن آئنوں میں اتری تھی
وقت کی آخری شناسائی
اجنبی ساعتوں میں اتری تھی
کاغذی کشتیاں لیے ناصر
زندگی پانیوں میں اتری تھی
(نصیر احمد ناصر، 1979، مطبوعہ اوراق)
|