* کائناتی ہیں سلسلے سارے *
کائناتی ہیں سلسلے سارے
یک نقاطی ہیں دائرے سارے
ایک کونے میں جا کے ملتے ہیں
لامکانوں کے زاویے سارے
ایک منزل پہ آ کے رکتے ہیں
ہر طرف سے یہ راستے سارے
ایک جیسی ہے روشنی سب کی
ایک جیسے ہیں یہ دیئے سارے
ایک مٹی ہے ایک پانی ہے
نقش فانی ہیں ایک سے سارے
ایک بے چہرگی کا عالم ہے
ایک حیرت میں آئنے سارے
ایک چہرے کی ضوفشانی میں
عکس و معکوس گم ہوئے سارے
ایک دریا ہے دو کنارے ہیں
ایک کشتی میں بھر گئے سارے
ایک پنگھٹ ہے اک مسافر ہے
ایک گوری کے ہیں گھڑے سارے
ایک جگنو ہے ایک جھاڑی ہے
ایک شعلے کے ترمرے سارے
کتنے سادھو، مہاتما، یوگی
ایک جنگل میں آ بسے سارے
ایک ٹھوکر پہ ساری دنیا تھی
ایک کھڈے میں جا گرے سارے
ایک خواہش کے سب اسیر ہوئے
ایک دھوکے میں آ گئے سارے
ایک جادو سے آ گئے واپس
ایک منتر سے چھو ہوئے سارے
اک محبت کی آبیاری ہے
ایک پھل کے ہیں ذائقے سارے
اک گرہ اور گنجلک اتنی
ایک ڈوری کے ہیں سرے سارے
ایک پتھر کی مہربانی ہے
پافگاروں کے آبلے سارے
ایک دوزخ ہے پیٹ بھی ناصر
ایک لقمے پہ لڑ پڑے سارے
*************** |