* کوئی انجان جزیروں کا نگر لکھا تھا *
کوئی انجان جزیروں کا نگر لکھا تھا
اس کی آنکھوں میں سمندر کا سفر لکھا تھا
درمیاں خواب کی دوری تھی زمانوں کی تھکن
ورنہ ہر شاخ تمنا پہ ثمر لکھا تھا
روشنی اس کا مقدر نہ ہوئی پھر، جس نے
منجمد رات کی دیوار پہ در لکھا تھا
موت سے پہلے مسافر نے تھکے ہاتھوں سے
ریگ صحرا پہ کئی بار شجر لکھا تھا
سب کے ہونٹوں پہ کسی بات کی چپ تھی ناصر
سب کی آنکھوں میں کسی خواب کا ڈر لکھا تھا
(نصیر احمد ناصر، 1980ء، مطبوعہ اوراق اپریل 1987ء)
|