* سمندر بے کراں ہونے سے پہلے *
سمندر بے کراں ہونے سے پہلے
کھلو کچھ، بادباں ہونے سے پہلے
کہاں تک ساتھ میرے تم چلو گے
سفر کے رائگاں ہونے سے پہلے
مجھے معلوم تھی ہر بات اپنی
کسی کا رازداں ہونے سے پہلے
ذرا کمرے کی حد تو پار کر لے
دریچہ آسماں ہونے سے پہلے
مری آنکھوں میں آنسو بھر گیا ہے
وہ چہرا عکس جاں ہونے سے پہلے
چلو نزدیک آ کر دیکھتے ہیں
دلوں میں دوریاں ہونے سے پہلے
جدائی بھی بہت روئے گی ناصر
ہمارے درمیاں ہونے سے پہلے
(نصیر احمد ناصر، 1993ء)
رنگ ہوں کہ خواب ہوں
جو بھی ہوں سراب ہوں
ہو سکے تو پڑھ مجھے
میں کھلی کتاب ہوں
نیلے آسمان پر
دودھیا سحاب ہوں
نیند کی صلیب پر
جاگتے کا خواب ہوں
چاندنی کی شاخ پر
ادھ کھلا گلاب ہوں
وہ کہ ہے گلیشئیر
میں کہ آفتاب ہوں
آپ ہی سوال ہوں
آپ ہی جواب ہوں
آئنے کے روبرو
عکس بے حجاب ہوں
رات کی فصیل میں
روشنی کا باب ہوں
جسم کا خیال ہوں
روح کا نقاب ہوں
پیڑ ہوں پھلا ہوا
اور زیر آب ہوں
شکل دے کوئی مجھے
کب سے خاک و آب ہوں
(نصیر احمد ناصر، 1976ء)
|