* دعا کرے گی اثر ، وہ بدل بھی سکتے ہیں *
غزل
دعا کرے گی اثر ، وہ بدل بھی سکتے ہیں
یقیں ہے دل کو یہ پتھر پگھل بھی سکتے ہیں
ہنسی اُڑائو نہ بربادیوں کی تم میری
بہت ہنسوگے تو آنسو نکل بھی سکتے ہیں
لبوں پہ شوخ تبسم ، نظر میں رقصِ شرر
کسی غریب کے ارماں مچل بھی سکتے ہیں
ردا اندھیرے کی اوڑھے جو چھپ گیا سورج
تمام جگنو شراروں میں ڈھل بھی سکتے ہیں
ضروری ہوتا ہے دنیا میں حوصلہ رکھنا
کہ حادثاتِ زمانہ بدل بھی سکتے ہیں
ہے کیا ضروری کہ گرجائیں ایک ٹھوکر سے
جو لڑکھڑائیں قدم پھر سنبھل بھی سکتے ہیں
گزرتی گھڑیوں کو ٹھہرا سکیں نہیں ممکن
نسیمہؔ ساتھ مگر اُ نکے چل بھی سکتے ہیں
نسیمہؔ تراب الحسن
H.No. 119, Road No-13A
Banjara Hills, Hyderabad-34
Ph: 040-23396324
بشکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
…………………………
|