ناصر علی سیّد
یہ اور بات کہ موجو د اپنے گھر میں ہوں
میں تیری سمت مگر مستقل سفر میں ہوں
نہ جانے اگلی گھڑی کیا سے کیا میں بن جاؤں
ابھی تو چاک پہ ہوں دست ِ کوزہ گر میں ہوں
میں اپنی فکر کی تجسیم کس طرح سے کروں
بریدہ دست ہوں اور شہر ِ بے ہنر میں ہوں
نہ جانے کون سا موسم مجھے ہرا کر دے
نمو کے واسطے بے تاب ہوں شجر میں ہوں
یہ دوستی بھی عجب چوبِ خشک ہے، ناصر
نبھا رہا ہوں مگر ٹوٹنے کے ڈر میں ہو ں َ
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸