* ز باں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا *
غزل
٭……ناصر کاظمی
ز باں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
انہی کے دم سے روشن ہیں مِلتوں کے چراغ
زمانہ صبحتِ ارباب فن کو ترسے گا
بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایۂ سرو وسمن کو ترسے گا
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن
زمین پانی کو، سورج کرن کو ترسے گا
|