* نگاہ و دل کی تواضع ہو، دید کی جائے *
نگاہ و دل کی تواضع ہو، دید کی جائے
وہ سامنے نظر آئیں تو عید کی جائے
ہماری ناک رہے اونچی رشتہ داروں میں
سو خود کو بیچ کے بکری خرید کی جائے
نیا لباس نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عید تو منانی ہے
پرانے کپڑوں کی قطع و برید کی جائے
جدید شعرا مرے شعر کو نہیں سمجھے
ہے سوچا، شاعری اب کے جدید کی جائے
خدایا بھیج پڑوسی کے گھر سے ران ہمیں
پکا کے دال نہ اب بقر عید کی جائے
محبتوں میں زبردستی چل نہیں سکتی
چلو سجن سے بھی گفت و شنید کی جائے
اسے منانے کی کوشش نے ہے تھکا ڈالا
مگر یہ دل، جو کہے ہے، مزید کی جائے
************* |