* ہم سے تجدید وفا کا حوصلہ ہوتا نہہں *
ہم سے تجدید وفا کا حوصلہ ہوتا نہہں
’’ ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں’’
کیسا سناٹا درون۔ ذات آ کر بس گیا
اے خدا اب کیوں کوئی محشر بپا ہوتا نہیں
سینت کے رکھے ہیں سب رنج و الم کس آس پر
دل پہیلی ہے عجب ، عقدہ کشا ہوتا نہیں
خواب اس کے آنکھ سے سب نوچ دینے تھے، مگر
جی سکوں گی کھو کے ان کو، فیصلہ ہوتا نہیں
زندگی کی ساری خوشیاں نام جس کے کر چکے
اس کو اکثر رنج کا میرے پتہ ہوتا نہیں
بے وفائی نے کسی کی توڑ ڈالا کیوں تمہیں
زندگی میں کیا کسی کی سانحہ ہوتا نہیں
جبر ۔ نا حق پر، پرندے اترے تھے افلاک سے
اب خدا ناراض ہے ، اب معجزہ ہوتا نہیں
************* |