* تجھ سے بچھڑ کے، زندگی، جاناں نہ کر *
تجھ سے بچھڑ کے، زندگی، جاناں نہ کر سکے
تیرے بغیر جینے کا ساماں نہ کر سکے
مانگا ہی کیا تھا ہم نے ترے ساتھ کے سوا
ایسا بھی کیا کہ اتنا سا احساں نہ کر سکے
جزبوں میں کیسی کیسی صداقت رہی مگر
حرمت تھی حرف کی، انہیں عریاں نہ کر سکے
خود داریوں نے لا کے کھڑا کر دیا کہاں
اپنی انا کو عشق پہ قرباں نہ کر سکے
برسیں گھٹائیں ٹوٹ کے، پی ہو کی ہو پکار
وہ رت ہی کیا جو دل کو غزلخواں نہ کر سکے
مجبوریوں نے باندھ کے رکھے تھے اس کے ہاتھ
ہم بھی جتا کے اس کو پشیماں نہ کر سکے
کوئی کمی تو ہم سے رہی ہو گی پھر ضرور
اے عشق، تجھ کو شعلہِ سوزاں نہ کر سکے
اک راز تھا جو آنکھ سے افشا نہیں ہوا
اک اشک تھا کہ زیور مژگاں نہ کر سکے
اس دور ابتلا نے ہے کیا کیا دکھا دیا
انساں نے وہ کیا ہے جو شیطاں نہ کر سکے
پھر معجزہ ہی کیا ہے بھلا میرے لمس میں
گر ان لبوں کو لعل بدخشاں نہ کر سکے
ایسے نزار ہم تھے، اڑائی گئی نہ خاک
ایسے نحیف، چاک گریباں نہ کر سکے
کیا کیا ضرورتیں رہی زنجیر پا ، مگر
’’خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے‘‘
|