غزل
عجیب خوف کا منظر دکھائی دیتا ہے
لہو میں ڈوبا ستمگر دکھائی دیتا ہے
ترے شباب کا پیکر ، ترے جمال کا رنگ
جواں ہو رات تو اکثر دکھائی دیتا ہے
سرور بخش ہوا بھی چلے گی شام ڈھلے
اگرچہ مہر یہ سر پر دکھائی دیتا ہے
نشہ غرور کا چھایا ہوا ہے کچھ ایسا
کہ ان کو سترہ ، اکہتر دکھائی دیتا ہے
بجھا نہ پائوگے تم اپنی پیاس اے مومنؔ
یہاں تو پیاسا سمندر دکھائی دیتا ہے
*********************