غزل
اے خدا یہ رات یوں باقی رہے
میں رہوں اور غم رہے، ساقی رہے
گفتگو میں کچھ نہ کچھ رکھئے بھرم
سلسلہ قائم یہ اخلاقی رہے
ہم جہاں بھی تھے اکیلے ہی رہے
وہ جہاں تھے بن کے الحاقی رہے
ہر طرح سے آزما کے تھک چکے
درمیاں کیوں اب یہ ناچاقی رہے
ہم کوئی مومنؔ نہیں نوشادؔ ہیں
آپ کا ہر شعر آفاقی رہے
***********************