غزل
وفا میں کوئی کھرا اب کہاں نکلتا ہے
یقیں سمجھتا ہوں جس کو گماں نکلتا ہے
مصالحت کی ردا اوڑھ لی ہے لوگوں نے
جسے بھی دیکھئے وہ بے زباں نکلتا ہے
اسے خبر ہے مقدر ہے ڈوبنا لیکن
بڑے غرور سے سورج یہاں نکلتا ہے
کسی کی یاد میں یوں نہ خشک ہوں آنکھیں
وفورِ غم میں بھی آنسو کہاں نکلتا ہے
جسے عزیز سمجھتے رہے وہی مومنؔ
ہمارے واسطے لیکر سناں نکلتا ہے
***************