غزل
ظلمت سے مرا گھر یہاں آزاد نہیں تھا
میں پھر بھی کبھی مائل فریاد نہیں تھا
ہے تاج ترے سر پہ سجا میرے ہی دم سے
تو میری طرح وقت کا شہزاد نہیں تھا
کیا تجھ کو بتائوں کہ ترے ہجر میں جاناں
بس تیرے سوا کچھ بھی مجھے یاد نہیں
آمادہ وہ کیوں ہوتا بھلا کوہ کنی پر
وہ آج کا دیوانہ تھا ، فرہاد نہیں تھا
ہر دور میں لٹتا ہی رہا وقت کے ہاتھوں
یہ شہر تمنا کبھی آباد نہیں تھا
تم اپنی تباہی کا گلہ چھوڑ دو مومنؔ
ایسا ہے یہاں کون جو برباد نہیں تھا
*************************