* گہرے جب جب بھی ہوئے تنہائی کے سائے *
غزل
گہرے جب جب بھی ہوئے تنہائی کے سائے بہت
تیرے لمحاتِ رفاقت مجھ کو یاد آئے بہت
جن کو آنکھیں ڈھونڈتی تھیں آہ اک وہ ہی نہ آئے
ویسے تو بہرِ عیادت لوگ باگ آئے بہت
جونک پتھر میں بھی لگتی ہے لگائے سے کہیں
ہم نے آدابِ وفا یوں اُن کو سکھلائے بہت
سر پہ بیداری کا سورج عمر بھر چمکا کیا
تھے تو آنکھوں میں سنہرے خواب کے سائے بہت
پھر تو چھائی دونوں پر اک والہانہ بے خودی
اوّل اوّل اُن سے ہم ، وہ ہم سے شرمائے بہت
تھے گراں گوش اہلِ ساحل ، کم نظر بھی تھے سبھی
ڈوبنے والے مدد کو یوں تو چلّائے بہت
اجنبیت تیرتی ہے ہر نظر کی جھیل میں
ٹوٹ کر ملتے ہیں ناوک یوں تو ہمسائے بہت
ناوک حمزہ پوری
Dar-ul-Adab, Hamza pur
Sherghati, Gaya (Bihar)
Mob: 9973046607
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|