* ’’ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی *
’’ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ‘‘
اس کھیت میں پتوں کی جگہ نوٹ لگا دو
’’ گرماؤ جوانوں کا لہو سوزِ یقیں سے ‘‘
یخنی انھیں تیتر کی، کبوتر کی پلا دو
جعلی ہیں جو کھادوں کے سہارے سے اُگے ہیں
’’ اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو ‘‘
ایسا نہ ہو بے چارے شتر مرغ پہ جھپٹے
’’ کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو ‘‘
|