* دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو *
دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھ ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ میخانے کو ہم
ہم کو فسانہ تھا قفس میں کیا گلہ صیّاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں صحرا میں گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے اے نظیر
تا کہ شادئی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم
|