* یہ عنائتیں غضب کی یہ بلا کی مہربان *
یہ عنائتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی
میری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی
میرا غم رلا چکا ہے تجھے بکھری زلف والے
یہ گھٹا بتا رہی ہے کہ برس چکا ہے پانی
تیرا حُسن سو رہا تھا میری چھیڑ نے جگایا
وہ نگاہ میں نے ڈالی کہ سنور گئی جوانی
میری بے زبان آنکھوں سے گرے ہیں چند قطرے
وہ سمجھ سکے تو آنسو، نہ سمجھ سکے تو پانی
|